پکارتے ھیں بہت اس کو اپنی تنہائی میں
کسی چٹان پر چڑھ کر بہت اونچائی میں
لوٹ آتی ھیں صدائیں بازگشت کی طر ح
محسوس کرتے ھیں خود کو کسی کھائی میں
کلیجہ کاٹ کر رکھتی ھیں ھجر کی ساعتیں
کبھی اتر کر دیکھو ستم کی گہرائی میں
خلوص و محبت بھی کہاں اب ارزاں رھے
کمر ٹوٹ چلی ھے غریب کی مہنگائی میں
ھمیں تو یادوں کی بس چنگاریاں ملیں
خود ھوں گے کہیں خوشیوں کی شہنائی میں
ہر رنج و الم سے ھمیں آشکار کیا
کیا ھم ھی رہ گئے یارب تری خدائی میں
مجرم بھی وھی ھیں اور شاھد بھی وھی
کوئی کسر نہیں باقی جگ ھنسائی میں
یکساں ھیں عادتیں ایکدوسر ے سے مگر
کوئی ثانی نہیں تیرا بے وفائی میں
اپنی حالت زار ھوتی ھے روبرو عارف
جیسے بیٹھے ھوں عدالت کی سنوائی میں