لوگ ملتےہیں آخر بچھڑ جاتے ہیں
پھول کھلتےہیں آخربکھر جاتے ہیں
ہم محظ خواہشِ مرگ کرتے ہیں اور
جان سے لوگ اپنی گزر جاتے ہیں
کر یہ ہم کو بھی طرزِ عرض تُو نصیب
بن کہے وہ تو اپنی بات کر جاتے ہیں
ہم تو سچ بولتے ہوے بھی سوچا کریں
آپ وعدے سے کیسے مکر جاتے ہیں
ہر طرف اس دہر میں ہے ویرانگی
ہم تو اپنی صدا سن کہ ڈر جاتے ہیں
تم کو رونا ہےاُجڑےاس دل کا وقاص
روز کتنے یہاں گھر اُجڑ جاتے ہیں