گردشِ حسن میں ہر وقت سفر ہوتا ہے
میرے قبیلے کا ہر فرد قمر ہوتا ہے
چراغ عین وہ نازوں سے جسکو پالا ہو
اپنے ماں باپ کا وہ نور نظر ہوتا ہے
لہو کے دھار سے معیارِ وفا لکھ دینا
عطش کے صحرا میں عزت کی قضا لکھ دین
کیونکہ ہر وقت وفاؤں میں بسر ہوتا ہے
دیار عشق کے گوشے میں صدا جا پہنچی
قلبِ مغموم سے نکلی وہ دعا جا پہنچی
سب نے مانا کہ دعاؤں میں اثر ہوتا ہے
مجھکو تم خود میں تراشو کسی قرینے سے
صدا یہ آئیگی ہر ایک ایک نگینے سے
سمندروں کے جگر میں یہ گوہر ہوتا ہے
عشق طوفان تباہ موجوں کو ساحل کہہ دوں
شہرِ حاکم کو بھلا کیسے میں قاتل کہہ دوں
دنیا ذلت سے نہ دیکھے یہی ڈر ہوتا ہے
ہے فاصلہ کیوں میرے زیست کے تقاضے سے
سانس کیوں اٹکی ہے غربت میں ساتھ نبھانے سے
کیا مفلسی بھی امیری کا زہر ہوتا ہے
یاد محبوب میں جگنو کے دل نشیں منظر
ان سے غافل نہ ہوا چل گئے کتنے جنجر
اشک بہتے ہیں تو پھر دردِ جگر ہوتا ہے
عدوئے زیست پہ ایک بار بھروسہ کر کے
ہم بھی دیکھیں گے درِ عشق پہ سجدہ کرکے
لوگ کہتے ہیں محبت میں اثر ہوتا ہے
چلیں خیالوں کی دنیا سے سر کشی کر لیں
عشقِ ایمان رضا دل کی خود خوشی کر لیں
کانچ کے گھر کو بھی پتھر سے خطر ہوتا ہے
✍️ از قلم رضا علی اعظمی