کیا ڈھونڈتا ہے تُو بھی زمیں ، آسماں کے بیچ
ہے فاصلہ ہی فاصلہ کون و مکاں کے بیچ
خوشیوں سے دور درد میں گزری ہے زندگی
کچھ بھی نہیں ہے اپنی تو اس داستاں کے بیچ
جن کو تھا شوق بہہ کے کنارے سے جا لگیں
دریا میں ہیں وہ آج بھی آبِ رواں کے بیچ
لگتا ہے اب تو قوم کا رہبر بنے گا وہ
جس کو ملے گی زندگی اس کارواں کے بیچ
میرے ہر ایک شعر میں ہے تذکرہ یہی
عمرِ رواں کٹی مری سود و زیاں کے بیچ
اب آئینے کے روبرو چہرہ میں کیا کروں
جب زندگی کی دھول ہوں اجڑے سماں کے بیچ
آنکھوں سے اپنے پیار کو کر لیں شکار ہم
اب بھی تو ایک تیر ہے وشمہ کماں کے بیچ