ماضی
Poet: نادیہ عنبر لودھی By: Nadia umber Lodhi, Islamabadمیں پرانے رستوں پہ پلٹ کے نہیں جایا کرتی
جانے پہچانے راستوں پہ جانے سے
پرانے زخم کُھل سے جاتے ہیں
روح میں چھپے درد چھڑ جاتے ہیں
سو میں پلٹ کے نہیں جاتی
دھر ی ہوتی ہیں اداسیاں
رکھی ہوتی ہیں آہٹیں جابجا
خشک پتوں پہ
کہیں قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے
کہیں رات کی رانی اداس دکھائی دیتی ہے
کوئی محبت کا ساز بجاتا نظر آتا ہے
کسی کی آنکھوں میں وارفتگی کا لمحہ جگمگاتا ہے
نازک کلیاں چنتی اک لڑ کی دکھائی دیتی ہے
جس کی آنکھیں جگنوؤں سی چمکتی ہیں
خوش گمانی کے پھول جس کے چار سو کھلے ہیں
جس کے عارض حیا کی لالی سے سرخ ہوۓ ہیں
اس رستے پہ تھوڑا سا آگے جاکے منظر بدل سا جاتا ہے
نارسائی کا ناگ ڈس لیتا ہے
کوئی وعدے کی زنجیر سے باندھ کے جاتا ہے
تو پلٹتا نہیں
ان پھولوں کو
اس لڑکی کو
خواب بُنتی ان آنکھوں کے
کوئی انتظار سونپ جاتا ہے
جانے پہچانے رستوں پہ
بار بار جانے سے
اداسی ہی ملتی ہے
بیتے ماضی سے لپٹی
ویرانی ہی سسکتی ہے
میں جانے پہچانے رستوں پہ پلٹ کے نہیں جایا کرتی
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






