مجھے مل گیا وہ پیغام جو تیری آنکھوں سے نکلا تھا
میں نے پڑھ لیا وہ نام جو تیری باتوں سے نکلا تھا
کہاں رہے سارا دن اے کاش تم بھی پوچھو مجھ سے
میں کہوں میں کھو گیا اچانک جو تیری یادوں سے نکلا تھا
مددت سے جو پتھر تھا وہ موم کیسے بن گیا
عمر بھر کی مسافت تھی جو تیری پرچھایئوں سے نکلا تھا
کہاں سے لاؤں اب میں واپس وہ گزا وقت
تجھے سوچ کر جو تیری تنہایوں سے نکلا تھا
نہیں آتا اب نظر ُاس کی زندگی میں اپنا وجود مجھے
تیرے گمان میں جو تیری راہوں سے نکلا تھا
اب تک سمبھال کر رکھا ہیں وہ آخری خط تمہارا
جیسے پڑھتے پڑھتے جو تیری گلیوں سے نکلا تھا