مجھے یاد ہے تیرا ہر ستم
مگر تجھ سے تو کوئ گلہ نہیں
سبھی اختیار ہیں تیرے ہاتھ میں
میں نے سوال تجھ سے کیا نہیں
تجھے نئ منزلوں کا نشہ ہے کیوں
میرے ساتھ کیوں کبھی چلا نہیں
یہ دل و نظر کی ہیں خواہشیں
تیرا بھرم بھی تو توڑا نہیں
تجھے کیوں ہیں اتنی شکایتیں
میں نے جرم تو کوئی کیا نہیں
تجھے فرصت نہیں ہے ظلم سے
میرے زخم بھی تو عیاں نہیں
تجھے خوف تھا یا گمان تھا
کیوں یقین مجھ پہ کیا نہیں