مجھ سےکٹتی ہے کہاں رات بھی ،تنہائی ہے
کتنا مغرور ہے اب میرا وہ ہر جائی ہے
کتنا اچھا ہے جو لوگوں نے مجھے نام دیا
مفت ملتی ہے کہاں عزتِ رسوائی ہے
جس کو ماں بن کے ہے سینے سے لگایا ہر دم
اچھا سمجھے ہے کہاں مجھ کو مرا بھائی ہے
اس کے جاتے ہی چلی جاتی ہیں سانسیں میری
روٹھ جاتی ہے مری زیست کی شہنائی ہے
لاکھ الزام لگالے وہ مجھے فکر نہیں
میرے احباب جو کرتے ہیں پزیرائی ہے
تم مرے ساتھ محبت کی گواہی دینا
دونوں بانٹیں گے محبت کی یہ رسوائی ہے
اس جگہ سے ہی نکل آئیں محبت کے کنول
جس چمن میں ہو محبت کی پزیرائی ہے
کتنا بہتر تھا جو خود میں ہی فنا ہم رہتے
ہم کو لے ڈوبی ہے تجھ سے تو شناسائی ہے
تیری دنیا کے رواجوں سے مجھے کیا لینا
موت آئے گی مجھے وشمہ اگر آئی ہے