اس حال میں جینا کوئی جینا بھی جہاں ہو
اے کاش اتر آئے فلک سے وہ سماں ہو
دنیا نے ستم اتنے کئے ہیں مرے دل پر
ان الجھے خیالات کی بھر مار کہاں ہو
ملنے پہ بھی چہرے کو ترستی ہیں نگائیں
کیا جانوں میں مہکے ہوئے گل زار جہاں ہو
تنہائی کو سینے سے لگا رکھا ہے کب سے
بکھری ہوئی اس روح کے سنسارخزاں ہو
مجھ سے نہ ہوئی اپنے ہی اشکوں کی حفاظت
بہتر ہے کہ مجھ سے مرے حالات بیاں ہو
کچھ لوگ یہاں پیار کے جنگل سے گزر کر
خود شہر خرافات میں گھر ڈھونڈ یہاں ہو
کھلتا نہیں آنکھوں میں کسی شب کا دریچہ
اے کاش اتر آئے فلک سے وہ کہاں ہو
دل پارہ ہوا میرا بس اک لفظ نہیں پر
امید نہ تھی اس کا جواب ایسا یہ ہاں ہو
کیوں خوف یہ بے نام لئے پھرتی ہے وشمہ
شدت سے تری دید کا بھی تاب و تواں ہو