مجھ سے کیا ہو گئی خطا جاناں
مجھ سے رہتے ہوکیوں خفا جاناں
میں تو اب بھی ہوں جانثار ترا
تو نے کیا کیا نہیں کیا جاناں
جس جگہ نقشِ پا ترے دیکھے
دل وہیں لَوٹنے لگا جاناں
کیا قیامت قریب آ پہنچی
دل میں اِک حشر ہے بپا جاناں
لوگ تو اَن کہی سمجھتے ہیں
تم پہ کب راز یہ کھلا جاناں
کیا کروں اعتبار اس دل کا
اب یہ میرا نہیں رہا جاناں
شاید اس سے ہی کچھ سکون ملے
آج اپنی غزل سنا جاناں
ترے دل نے سمجھ لیا ہو گا
مری آنکھوں نے جو کہا جاناں
جانے کس کس نے پڑھ لیا ہے اسے
ترے کاجل نے جو لکھا جاناں
میں نے دیکھا تھا ایک بار تمہیں
تُو نے کیا کیا دکھا دیا جاناں
تری ہر بات ہے قبول مجھے
ترا ہر ظلم ہے روا جاناں
مجھ کو محفل سے یوں اُٹھایا گیا
مرا کچھ بھی نہیں رہا یارو
ہو سکے تو معاف کر دینا
میں نے جو کچھ کہا سنا جاناں
اب تمہیں انتظار ہے کس کا
وہ تو دنیا سے چل بسا جاناں
مرتے مرتے بھی کہہ رہا تھا و سیم
خوش رہو تم یہاں سدا جاناں