مجھ سے کیا ہو گئی خطا جاناں
Poet: wasim ahmad moghal By: wasim ahmad moghal, lahoreمجھ سے کیا ہو گئی خطا جاناں
مجھ سے رہتے ہوکیوں خفا جاناں
میں تو اب بھی ہوں جانثار ترا
تو نے کیا کیا نہیں کیا جاناں
جس جگہ نقشِ پا ترے دیکھے
دل وہیں لَوٹنے لگا جاناں
کیا قیامت قریب آ پہنچی
دل میں اِک حشر ہے بپا جاناں
لوگ تو اَن کہی سمجھتے ہیں
تم پہ کب راز یہ کھلا جاناں
کیا کروں اعتبار اس دل کا
اب یہ میرا نہیں رہا جاناں
شاید اس سے ہی کچھ سکون ملے
آج اپنی غزل سنا جاناں
ترے دل نے سمجھ لیا ہو گا
مری آنکھوں نے جو کہا جاناں
جانے کس کس نے پڑھ لیا ہے اسے
ترے کاجل نے جو لکھا جاناں
میں نے دیکھا تھا ایک بار تمہیں
تُو نے کیا کیا دکھا دیا جاناں
تری ہر بات ہے قبول مجھے
ترا ہر ظلم ہے روا جاناں
مجھ کو محفل سے یوں اُٹھایا گیا
مرا کچھ بھی نہیں رہا یارو
ہو سکے تو معاف کر دینا
میں نے جو کچھ کہا سنا جاناں
اب تمہیں انتظار ہے کس کا
وہ تو دنیا سے چل بسا جاناں
مرتے مرتے بھی کہہ رہا تھا و سیم
خوش رہو تم یہاں سدا جاناں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






