مجھ میں جو بس گئی ایسی بھی تشنگی دیکھوں
آرزو دل کہ تجھ میں یاد کی ہچکی دیکھوں
میرے فلک پر گھٹائیں بھل چھاتی رہیں
مگر اُسے اِن بہاروں میں ڈھلتی دیکھوں
میرا مقدر میرے ملال کے ساتھ رہ جائے
ایسی بھی حالت ہر کسی سے ٹلتی دیکھوں
یوں سانس مہک جائے اور نیند نہ آئے
اپنی بانہوں میں ہر لوری کو تڑپتی دیکھوں
یہ سبزہ زار بھی تروتازہ ہو ہردم
اِس گلشن کی ہر کلی کھلتی دیکھوں
کون جیتا ہے غرض کے بغیر سنتوشؔ مگر
ملے بھی کہیں وفا تو دنیا بدلتی دیکھوں