محبتوں کے درمیاں حائل اک زمانہ تھا
مگر اپنے اپنے عہد کو ہم نے تو نبھانا تھا
بغاوت کرنی تھی ہمیں رسم و رواج سے
پھر ہمارے قبیلے نے ہمیں سولی پہ چڑھانا تھا
آنکھوں کو زخموں سے ہم بھلا بچاتے کیا
راستے کے خاروں کو پلکوں سے اٹھانا تھا
بادلوں کی چھاؤں کا انتظار کرتے کب تلک
دھوپ بڑی کڑی تھی اور ہمیں دور جانا تھا
زندگی مجھے اک ایسے موڑ پہ لائی تھی
مجھے اک چراغ جلانا تھا اک چراغ بجھانا تھا
عثمان قافلے کی رہبری جو ہمیں آن ملی تھی
دشمنوں کو بھی ہم نے راستہ دکھانا تھا