محبتیں بھی ہیں اب کاروبار واقعی
Poet: muhammad nawaz By: muhammad nawaz, sangla hillہے میری سوچ پہ چھایا خمار واقعی
سزا مجھے کوئی دیجے قرار واقعی
اور تو اور میری اور بھی دیکھا اسنے
بڑی بے لوث ہے ابکے بہار واقعی
آپ اس وصل کی بابت درست کہتے تھے
چھٹ گیا روح کا سارا غبار واقعی
دیکھ کر حال میرا حسن کا ارشاد ہوا
تیر تو ہو گیا سینے کے پار واقعی
ابھی مے میز ہواؤں نے کی ہے سرگوشی
وہ کر رہا ہے تیرا انتظار واقعی
آپ سمجھا کئے گفتار کے غازی جن کو
سربکف ہونے چلے ہیں نثار واقعی
غم فردا غم امروز غم راہ وفا
نہیں ہے میرے غموں کا شمار واقعی
خلا میں پھر رہی تھی آج سرکشی اسکی
نہیں ہے شوق پہ کچھ اختیار واقعی
تمہارے روپ پہ بکھری شفق سے جانا ہے
خلوص لاتا ہے رخ پر نکھار واقعی
مجھے بتایا بڑے ناز سے مقتل کا پتہ
کیا ہے آپ نے کچھ اعتبار واقعی
مقام و نسب ،زر و مال سبھی پیش نظر
محبتیں بھی ہیں اب کاروبار واقعی
ہزار بار گئے پل کو پکڑنا چاہا
مڑی نہیں ہے سمے کی مہار واقعی
میں چلا آیا ہوں سچ بول کے با ہوش و خرد
یقین کیجئے دلکش ہے دار واقعی
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






