محبت ماورائے کفر و دیں ہے
محبت کا کوئی مذہب نہیں ہے
محبت حسن ہے حسن آفریں ہے
محبت حسن سے بڑھ کر حسیں ہے
بدل اس کا زمانہ میں نہیں ہے
بڑی دولت مرا حسن یقیں ہے
تصور میں وہ زلف عنبریں ہے
نظر میں اب نہ دنیا ہے نہ دیں ہے
مجھے اس قول پر اپنے یقیں ہے
نہ ہو جس سے خیانت وہ امیں ہے
بظاہر خاک کا پتلا ہے سب کچھ
جو دیکھو غور سے کچھ بھی نہیں ہے
محبت جس کو کہتا ہے زمانہ
یہی وہ زہر ہے جو آبگیں ہے
سنبھلنا اے دل ناداں سنبھلنا
بڑی قاتل نگاہ اولیں ہے
مکافات عمل ہے بزم ہستی
یہیں دوزخ یہیں خلد بریں ہے
حقیقت حسن کی کچھ ہے تو اتنی
جو چڑھ جائے نظر میں وہ حسیں ہے
محبت کا نہیں ہے کوئی خالق
محبت خود محبت آفریں ہے
بھروسہ کیا کرے کوئی کسی پر
جو اپنا ہے وہی اپنا نہیں ہے
کہا جاتا ہے یہ طالبؔ سے اکثر
سخن تیرا نہایت دل نشیں ہے