محبت آزمائش ہے مگر پرکھی نہیں جاتی
محبت ہو تو سکتی ہے محبت کی نہیں جاتی
اگر پوچھے بنا کوئی کسی کے دل میں آجائے
اسے پھر دل سے جانے کی اجازت دی نہیں جاتی
بنا دستک دیئے دل کوئی دل کا مہمان بن جائے
کسی کی دل میں آمد بے دھڑک روکی نہیں جاتی
محبت وہ حسیں جذبہ جو قدرت کی عنایت ہے
مگر اس کی قدر کرنا ہر اک دل کو نہیں آتی
خزاں منظر گل و گلزار ہوتے ہیں بہاروں میں
بکھر جانے سے یہ خوشبو کبھی روکی نہیں جاتی
گلستان محبت زرد موسم سے نہیں واقف
گلستان محبت میں بہار آئی، نہیں جاتی
کسی انجان رستے پر کسی گمنام منزل پہ
کوئی مانوس مل جائے نظر بدلی نہیں جاتی
مجھے تو آزما لے چاہے میرا امتحاں لے لے
مگر اتنا سمجھ پہلے وفا پرکھی نہیں جاتی
تخیل آزمائی کی مجھے عادت نہیں عظمٰی
کوئی شاہکار مل جائے غزل روکی نہیں جاتی