محبت کے اشارے مل رہے ہیں
حسیں پیارے نظارے مل رہے ہیں
سیاست کر رہے ہیں لوٹے ہی اب
مفت میں اب ادارے مل رہے ہیں
نہیں ملتا بنا مطلب کے کوئی
یہ دشمن اب تو سارے مل رہے ہیں
مری بدلے گی اب تقدیر شاید
یہ قسمت کے ستارے مل رہے ہیں
محبت ہو رہی ہے دل سے عنقاء
پرانے زخم سارے مل رہے ہیں
کروفر وہ نہیں ہے پہلے والی
خسارے پہ خسارے مل رہے ہیں
مری قسمت سنورے گی نہیں اب
مصیبت کے یہ مارے مل رہے ہیں
غمِ جاناں کوئی غم بھی نہیں ہے
یہی دکھ ہے ہمارے مل رہے ہیں
زمیں شہزاد بنجر ہو رہی ہے
سمندر کے کنارے مل رہے ہیں