نیم سرگوشی میں محبت کا اظہار ہوا
میری شناسائی کا سمندر شاہکار ہوا
روز عذاب تھے خلوت میں بچھڑ جانے کے
تیرا سراپا ہی میری چاہت کا اعتبار ہوا
دل وحشی کو سکوں نہیں شب گزیدہ میں
میرا حرف جنوں ہر نئی الجھن کا شکار ہوا
منہدم عکس ہے مدھم ہے امیدوں کا سفر
ہر اک اشک پہ کومل کا حوالہ بے شمار ہوا