مُدت ہوئی ہے آنکھ میں آنسو بھرے ہوئے
مُدت ہوئی ہے کُھل کے ذرا سا ہنسے ہوئے
مُدت ہوئی ہے کوئی محبّت کئے ہوئے
مُدت ہوئی ہے کوئی تماشا بَنے ہوئے
مُدت ہوئی ہے لُطف خوشی کا لئے ہوئے
مُدت ہوئی ہے بے سرو ساماں ہوئے ہوئے
مُدت سے جیتے ہیں تری یادوں کو اُوڑھ کر
مُدت ہوئی ہے غیر پہ نظریں کئے ہوئے
ہر رات ایسے کٹتی ہے مُدت ہوئی ندیم
بوسے تصورات میں تیرے لیے ہوئے