مرا بچپن مری سوچوں کےآنگن میں مچلتا ہے
مری آنکھوں سے جب آنسو مرے گالوں پہ گرتا ہے
میں دیوارِ محبت پر اگر تحریر کچھ کر دوں
مرا دل اس گھڑی بے نام آتش میں سلگتا ہے
میں جب احساس کے جنگل میں رستہ بھول جاتی ہوں
تو بھر احساس دلدل کی طرح مجھ کو نکلتا ہے
یہ دستور زماں کیسے مجھے اب روک پائے گا
مری سوچوں سے جو لاوا سا ہر لحمہ نکلتا ہے
مقدر کیا لکھے گا کاتب تقدیر اب وشمہ
وہ کر کے فیصلہ خود فیصلے کو جو بدلتا ہے