مرگ کے بعد ہی پیارو تمہیں یاد آؤں گا
اپنے اشعار میں یارو تمہیں یاد آؤں گا
چھوڑ جاؤں گا فضاؤں میں، میں خوشبو اپنی
شہرِ جاناں کی بہارو تمہیں یاد آؤں گا
میں نے ہر سال جو پھولوں سے سجایا ہے تمہیں
اے بزرگوں کے مزارو تمہیں یاد آؤں گا
بیٹھ کر تم پہ بھی اشعار میں لکھتا تھا کبھی
سندھ دریا کے کنارو تمہیں یاد آؤں گا
میں نے ہر رات گزاری جو تمہارے سنگ تھی
چاندنی رات کے تارو تمہیں یاد آؤں گا
کیسے ممکن ہے کہ محسوس کمی ہو گی مری
میں جو ہر موڑ پہ یارو تمہیں یاد آؤں گا
شہر والو ذرا سوچو یہ کہا تھا کس نے
مجھے پتھر تو نہ مارو تمہیں یاد آؤں گا
لے گئے جان مری یار کے غم آخر کار
اے غمِ ہجر کے مارو تمہیں یاد آؤں گا
عمر بھر اس کو تو باقرؔ میں یہی کہتا رہتا
مجھے دل سے نہ پکارو تمہیں یاد آؤں گا