مری خطا سے بڑی تیری درگزر ہوگی
تو پھر دعا مری کاہے کو بے اثر ہوگی
یہ میرے دل کے سفر کی ہے کون سی منزل
پتہ نہیں ہے مسافر کو تو خبر ہوگی
نہا کے شب میں ہی گیسو جھٹک کے کھول دئے
تو کس طرح سے مری جان اب سحر ہوگی
خدا دراز کرے عمر تیری زلفوں کی
شب وصال بلا سے جو مختصر ہوگی
جو مجھ سے لینا ہے لے لے متاع فکر و نظر
وگرنہ دنیا بہ کشکول در بدر ہوگی
اٹھے گا شور قیامت بپے گا حشر سحرؔ
جو ان کی گرگ شناسائی معتبر ہوگی