مری داستاں میں یہ عام ہےجو تھے آسرا ہوئے اجنبی
وہ ہی راستے جو تھے گھر تلک ہوئے بے وفا ہوئے اجنبی
میں بھٹک رہا ہوں جہان میں، مرے دل! یہاں یہ نیا نہیں
ہوئے گم یہاں سبھی قافلے وہ جو ناخدا ہوئے اجنبی
یہ ہی سلسلے رہے ہم سفر یہ ہی تذکرے سنے ہر جگہ
کہیں اجنبی ہوئے آشنا کہیں آشنا ہوئے اجنبی
مرا کون تھا مرا کون ہے مرے حال نے یہ بتا دیا
جو مصیبتوں نے جکڑ لیا مرے ہم نوا ہوئے اجنبی
میں ضرورتوں میں جو گھر گیا ، ہوا دربدر، ہوا خاک سا
وہ جو حوصلے تھے چٹاں کبھی وہ ہی سورما ہوئے اجنبی
یہ ہی حال ہے، یہ رواج ہے کہ جہان کا یہ مزاج ہے
یوں ہی مفلسی کے سبب یہاں سبھی آشنا ہوئے اجنبی