مری وفائوں کا سِلہ یہ دیا اُس نے،
مری آبرو کو خاک میں ملا دیا اُس نے،
تُو آگوش میں مری رات بسر کرتا تھا
یاد آیا آج وہ پل تو رُلا دیا اُس نے،
چاند تارے ترے بارے پوچھتے ہیں اکثر
رو کے کہتا ہوں میں بُھلا دیا اُس نے،
خطا یہی تھی بس پیار کر بیٹھا اُس سے
غموں کا دور بطور سزا دیا اُس نے،
اب سوچ کے انتخاب کروں گا دوستوں کا
نہال کو اتنا فرق تو بتا دیا اُس نے،