مرے ذہن و دل پر جو چھایا ہوا ہے
مجھے اس نے یکسر بھلایا ہوا ہے
ہر اک نقش دنیا مٹایا ہوا ہے
اسے میں نے دل میں بسایا ہوا ہے
بہت دور محسوس ہوتا ہے مجھ کو
گلے جس کو میں نے لگایا ہوا ہے
مجھے خوف ہے سلوٹیں پڑ نہ جائیں
بدن اس نے اپنا بچھایا ہوا ہے
تمہیں ڈھونڈنے سے نہیں ملنے والا
نشان اپنا میں نے مٹایا ہوا ہے
بھٹکتے ہیں صحرا میں کتنے مسافر
ہر اک نقش پا کا صفایا ہوا ہے
یہی جانشیں ہے مری مملکت کا
بغل میں جو بچہ سلایا ہوا ہے