معلوم ہے اس دنیا میں مشہور نہیں ہے
یہ گاؤں ترے دل سے تو اب دور نہیں ہے
گرمی کا یہ عالم ہے کہ دریا بھی ہوئے خشک
اشجار سے پتے بھی گرے ،بُور نہیں ہے
یہ اس کی مشیت ہے ہمیں ملنے نہ آئے
ورنہ وہ کسی طور بھی مجبور نہیں ہے
مصروف رہا کرتا ہے وہ شخص ہمیشہ
ویسے تو مرا اہنا ہے مغرور نہیں ہے
تصویرِ محبت ہوں ذرا غور سے دیکھو
اس دنیا میں مجھ جیسی کوئی حُور نہیں ہے
اس شہرِ جفا جُو میں تجھے چھوڑ دوں وشمہ
ہر بات ہے منظور یہ منظور نہیں ہے