موت سے مکر جائیں زندگی سے ڈر جائیں ہجر کے سمندر کو آؤ پار کر جائیں راستے یہ کہتے ہیں اب تو اپنے گھر جائیں اک ذرا سی مہلت ہو دل کی بات کر جائیں شہر عشق میں آخر کیسے معتبر جائیں وہ پلٹ کر دیکھے تو رنگ سے بکھر جائیں