اٹھتی ہیں جب یہ موج زن کی لہیریں
ابھرتی ہیں پھر موج سخن کی لہریں
الجھتی ہیں یوں اسرار و انتشار کی لکیریں
بکھرتی ہیں پھر فن خطاطی کی لہیریں
بعد غور وتفکر کے لفظوں کو سنوار کے
سجتی ہیں قرطاس پر بحر و بند کی لہیریں
رہتی ہیں یوں نقش صفحہ ہستی پر سند تحریریں
رہتی نہیں گر چہ درخشندے اپنی سانسوں کی لہریں