امن کی لو سے پھوٹتی ہوئی صبحیں لاؤ
میری کھوئی ہوئی جنت کی بہاریں لاؤ
لو کی شدت سے بڑھ گئی ہے فضاؤں کی تپش
موسمو ڈھونڈ کے وہ ریشمی زلفیں لاؤ
ہاں کرو برق تجلی کی تمنا لیکن
جو کسی حسن کو سہہ پائیں وہ آنکھیں لاؤ
آج پھر اڑن کھٹولا ہے میرے قدموں میں
کہیں سے موڑ کے بچپن کی وہ شامیں لاؤ
پیار ہی پیار جتانا عجیب لگتا ہے
روٹھ کر ماننے والی وہ ادائیں لاؤ
مجھے گرداب میں جینے کا مزہ آتا ہے
مجھ سے ٹکرائیں جو آ کر وہی موجیں لاؤ
آج بھی دیکھ ہتھیلی ہے صورت صحرا
لاؤ جو تم نے چرائیں وہ لکیریں لاؤ
جن کے چکر میں وفاؤں نے کنڈلیاں بدلیں
کھول کر دیکھتے ہیں آج وہ گرہیں لاؤ
بات چھیڑو نہ میرے ٹوٹ کر بکھرنے کی
وصل کے بیچ میں نہ ہجر کی باتیں لاؤ