مُجھے خَبَر ہی کہاں تھی کہ وه جَفا دے گا
مِری اُمید کے سارے دِیۓ بُجھا دے گا
وہ میرے نام کرے گا یہ ہِجر کا موسم
اور اِس طَرح سے مِری زِندگی رُلا دے گا
میں اُس سے کیسے مسیحائ کی اُمید رَکھوں
جو میرے دَرد کی شِدت کو اور ہَوا دے گا
پتا چلا کہ مُجھے دوست ٹِھیک کہتے تھے
کہ دیکھنا وہ تُجھے ایک دِن بُھلا دے گا
ہے رَسم میرے شہر کے ہَر ایک باسی میں
نہ کام آۓ کوئ تو وہ بَدُعا دے گا
یہ میرے دِل میں اَبھی تَک گُمان زِنده ہے
وہ میرے بام پہ دَستَک کبھی تو آ دے گا
مُجھے یقیں ہی نہیں آتا آج تَک باقرؔ
وہ دِل سے نام و نشاں تَک مِرا مِٹا دے گا