تیری اس بزم میں مہتاب بہت ہیں
میرے شعر بھی نایاب بہت ہیں
جہاں دیکھتا ہوں تم ہی تم ہو
میری آنکھوں میں سراب بہت ہیں
یہ اور بات کے میں کچھ نہیں کہتا
ورنہ تیری باتوں کے جواب بہت ہیں
تیری آنکھوں کی گہرائی ہے سمندر کی طرح
میرے لیے ان میں گرداب بہت ہیں
تمہیں تو میری یاد نہیں آتی کبھی
ہم تم سے ملنے کو بیتاب بہت ہیں
سر تھام کے کیوں بیٹھ گئے اصغر
زیست میں ابھی عتاب بہت ہیں