میرا رشتہ کیا ہے تجھ سے
سب نے یہ سوال ُاٹھایا ہے
اک معصوم کی محبت پے جاناں
یہ کیسا طوفان چھایا ہے
توں نے بھی منہ پھیر لیا مجھ سے
جب سے الزاموں نے ساتھ نبھایا ہے
وہ چاہتا تو نکال سکتا تھا مجھے لکی
نجانے کیا سوچ کر میرا سفینہ ڈابویا ہے
اب بازی عشق کس بنا پر کھیلے
جبکہ ہماری محبت کو سب نے گناہ ٹہرایا ہے
یادوں کے سوا اب کچھ نہیں ہمارے پاس
اور ُاس نے امیر کہہ کر ہمیں غریب بنھایا ہے
سوچتی ہوں کیا رستہ بدل دوں اپنا مگر
دل کہتا ہیں کہ --- نا لکی میں نے سجدوں میں سر جھکایا ہے