میری آرزو اب تک ہے چاہت لیئے چلا نہ پائے
تیری یاد بھی کیا یاد تھی بس بے وجہ بھلا نہ پائے
اُن خطوں میں لفظوں سے کوئی آہٹ سنی تھی
آندھیاں کتنی تیز آئی مگر انہیں اڑا نہ پائے
میں ماہتاب تھا مرگیا تیری حسرت کا حساب لیکر
اٹھی کوئی شرط آج کہ میرا دل ہے سزا نہ پائے
ہم ان آنکھوں میں رہے تو بھی اشکوں کی طرح
اسی نظر سے گرے یوں کہ آج تک اٹھا نہ پائے
ناداری کے ساتھ ہم صنوبر کے پیاسے بھی تھے
سمندر کو کس کی بے رخی کہیں اور بہا لے جائے
حیات نہ جانے کس وسعت تک زندہ رکھے گی
وقت کی رفتار سے لوٹنا کہیں موت ہو نہ جائے