میری آنکھوں میں جب ہے نمی چاندنی
Poet: Wasim Ahmad Moghal By: Wasim Ahmad Moghal, Lahoreمیری آنکھوں میں جب ہے نمی چاندنی
اُن کے ہونٹوں پہ کیوں ہے ہنسی چاندنی
حسن نے اِک نظر بھی نہ دیکھا مجھے
رہ گئی عشق میں کیا کمی چاندنی
وہ کیا جانیں کیا ہے یہ دل کی لگی
وہ جو کرتے رہے دل لگی چاندنی
چھوڑ آیا ہوں اپنے میں دل کو جہاں
یاد آئے نہ کیوں وہ گلی چاندنی
یاد کر کر کے اُن کی ستم رانیاں
رو رہے ہیں یہاں پر سبھی چاندنی
چاہنے والے اُن کے پریشان ہیں
آج تک اُن سے کس کی بنی چاندنی
آج پھر اُن سے کچھ بھی نہ کہہ پائے ہم
بات پھر رہ گئی اَن کہی چاندنی
وہ کیا جانے دل پہ گزرتی ہے کیا
چھیڑے بیٹھا ہے جو راگنی چاندنی
تاب لا نا سکے اُن کی جلووں کی ہم
کب کسی کی نظر واں اُٹھی چاندنی
داستانِ وفا جب لکھی جائے گی
یاد آئی گی اُن کو مری چاندنی
پہلے پہلے بہت مہرباں تھے حضور
پھر وہ کرنے لگے بے رُخی چاندنی
تم ہی ہو جس سے اپنی شناسائی ہے
ورنہ میں تو ہوں یاں اجنبی چاندنی
کیوں جلاتی ہو جسم و دل و جان کو
مجھ سے ملنا نہ اب تم کبھی چاندنی
اب میں کس سے کہوں حال اپنا و سیم
اُس نے کر دی سنی اَن سنی چاندنی
آنسو گر گر کے لکھتے رہے اُس کا نام
گرد دیکھی جہاں بھی جمی چاندنی
کب تلک اُس کو روتا رہے گا و سیم
جب تلک چھائے نا بے خودی چاندنی
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






