میری آنکھوں میں جب ہے نمی چاندنی
اُن کے ہونٹوں پہ کیوں ہے ہنسی چاندنی
حسن نے اِک نظر بھی نہ دیکھا مجھے
رہ گئی عشق میں کیا کمی چاندنی
وہ کیا جانیں کیا ہے یہ دل کی لگی
وہ جو کرتے رہے دل لگی چاندنی
چھوڑ آیا ہوں اپنے میں دل کو جہاں
یاد آئے نہ کیوں وہ گلی چاندنی
یاد کر کر کے اُن کی ستم رانیاں
رو رہے ہیں یہاں پر سبھی چاندنی
چاہنے والے اُن کے پریشان ہیں
آج تک اُن سے کس کی بنی چاندنی
آج پھر اُن سے کچھ بھی نہ کہہ پائے ہم
بات پھر رہ گئی اَن کہی چاندنی
وہ کیا جانے دل پہ گزرتی ہے کیا
چھیڑے بیٹھا ہے جو راگنی چاندنی
تاب لا نا سکے اُن کی جلووں کی ہم
کب کسی کی نظر واں اُٹھی چاندنی
داستانِ وفا جب لکھی جائے گی
یاد آئی گی اُن کو مری چاندنی
پہلے پہلے بہت مہرباں تھے حضور
پھر وہ کرنے لگے بے رُخی چاندنی
تم ہی ہو جس سے اپنی شناسائی ہے
ورنہ میں تو ہوں یاں اجنبی چاندنی
کیوں جلاتی ہو جسم و دل و جان کو
مجھ سے ملنا نہ اب تم کبھی چاندنی
اب میں کس سے کہوں حال اپنا و سیم
اُس نے کر دی سنی اَن سنی چاندنی
آنسو گر گر کے لکھتے رہے اُس کا نام
گرد دیکھی جہاں بھی جمی چاندنی
کب تلک اُس کو روتا رہے گا و سیم
جب تلک چھائے نا بے خودی چاندنی