میری بانہیں تیری بانہوں میں لچکنا چاہیں
میری سانسیں تیری سانسوں میں الجھنا چاہیں
دیکھ مرجھائے نہ شاخِ تمنا جاناں
اس پہ کلیاں ابھی کچھ اور مہکنا چاہیں
یوں گزرنے کو شبِ ہجر گزر جائے گی
عادتا آنکھیں تیری راہ کو تکنا چاہیں
لغزشیں ہیں کہ میرے ساتھ چلی آتی ہیں
ہم تو ہر گام میری جان سنبھلنا چاہیں
ہاں وہ موہوم سہی ، اپنا ہے رشتہ اُن سے
یہ الگ بات “شرف“ اب نہ وہ ملنا چاہیں