میری دل کی ارضی پر وہ قبضہ کرتے رہے
یہاں یہ مرغوب خیال اپنی حالتیں بدلتے رہے
جب بھی چنگاریوں نے کوئی گھر ڈھونڈا
تب شورش سے متحیر بادل گرجتے رہے
ہواؤں نے بھی کوئی انگڑائی رکھی تھی
سب سوکھے پتے میرے آنگن میں گرتے رہے
ساقیئے نے جام کا چھلکا بھی محسوس نہ کیا
اس طرح سے میرے آنسو تو گرتے رہے
کس غنیمت نے کی تھی نگرانی ہم پر
جو ہنگامے تھے دل میں وہ مچلتے رہے
ہر ملا تھا مفسد اپنے مفاد سے سنتوش
ہم تو سب کچھ تقدیر کا کھیل سمجھتے رہے