اے کہکشاں نواز مقدر عقیل ہے
میری طرف بھی ایک ستارہ جلیل ہے
ہم پورے آفتاب کے قابل نہیں اگر
تھوڑی سی پیلی دھوپ ہو آنکھو ں سے علیل ہے
تو لفظ گر تو ہے تجھے شاعر کہیں گے جب
اک بے زبان حرف حسین و جمیل ہے
ان شاعرانہ باتوں سے جیتوں میں کیسے دل
لوگوں کو تو عزیز ہے عرصہ طویل ہے
اس زندگی میں الجھنیں لاکھوں سہی مگر
اب مشکلات وقت کا عرصہ قلیل ہے
اوروں کے واسطے تو بچھاتی رہی سدا
اب جس میں قید ہو گی مرا ہی وکیل ہے
ملزم کو ہر سزا سے وہ آخر بچا ئے گا
اپنی دلیل پر اسے حاصل دلیل ہے
وشمہ اس آفتاب میں جوہر ہے اس قدر
آ جائے جوش میں تو یہ دریائے نیل ہے