تیرا سراپا رہے میری نگاہوں کے آگے
جاگ کر سوتے رہے یا نیند سے جاگے
کوئی انداز کوئی حسن کوئی جادو سہی
مگر نہ ٹھہر سکا تیرے نظر کے آگے
اگر وہ تو نہیں کوئی اور تیرے جیسا تھا
کیوں اسے دیکھ کر سوئے ارماں جاگے
وہ راستہ بدل کے جانے کس گلی میں گیا
ہمیں نہ مل سکا ہم پیچھے تو بہت بھاگے
تم سے بچھڑ کے سب سے جدا ہونے لگے
تمہارے بن کسی نگر میں جی نہیں لاگے
اب میری نگاہوں میں کوئی اور نہیں جچتا
وہ جب سے آگئے میری نگاہوں کے آگے
کوئی لاکھ چاہے توڑ نہیں پائے گا
نازک نہیں ہوتے محبت کے دھاگے
تا حد نظر ریت کا سمندر پھیلا ہے
سیراب نہ ہوئے ملے سراب ہی آگے