میرے اضطراف کی حدیں اب نہیں رہی
کہ اس انتظار کی حدیں اب نہیں رہی
ہر چہرے کا ہی انتشار بولتا ہے
کہ قرار کی حدیں اب نہیں رہی
اس کرہ عرض پہ میں بھٹک رہا ہوں
کہیں فرار کی حدیں اب نہیں رہی
پی کر بھی تیری یاد کہاں بھوُلے
اس شراب کی حدیں اب نہیں رہی
خیالوں کی شدت کو پھر کون سمجھائے
گذر ناگوار کی حدیں اب نہیں رہی
یہاں سوداگری کہ دل بھی بکنے لگے
اس بازار کی حدین اب نہیں رہی