دل ہی دل ہو گئے دلدار میرے رستے میں
اب تو بکتے ہیں خریدار میرے رستے میں
وقفے وقفے سے جو اک بھیڑلگی رہتی ہے
منتظر ہوتے ہیں سردار میرے رستے میں
اپنے سر پر جسے یہ لوگ سجائے رکھیں
پڑی رہتی ہے وہ دستار میرے رستے میں
ایک ہی جست میں تجھ تک میں پہنچ سکتا ھوں
تیرے گھر کی ہے جو دیوار میرے رستے میں
شہر سے دور کہیں دشت میں جانا چاہوں
لیکن آجاتا ہے بازار میرے رستے میں
جیسے ہی مجھ کو مسیحا ہوں سمجھتے آرب
پڑے رہتے ہیں یہ بیمار میرے رستے میں