میں آنکھیں بیچنا چاہوں
Poet: Ajmal Nazir By: Ajmal Nazir, abbottabadمیں آنکھیں بیچنا چاہوں
کہ اِن میں خواب ہیں تیرے
میںتیرے خواب کیوں دیکھوں
نئے عذاب کیوں دیکھوں
یہی عذاب کیا کم ہے
تیری یادوں میں جلتا ہوں
تجھے پانے کی خاطر
میں نئے چہرے بدلتا ہوں
مگر تم بیوفا ہو جو میرے
خونِ تمنا کو جلا کر راکھ کرتے ہو
میرے دل کے نِہاں خانوں میں
انگارے سے بھرتے ہو
میں تجھ کو چاہوں تو کیونکر
کہ میں نے تجھ سے کیا پایا؟
وہی کچھ درد کے لمحے
جو تو نے مجھ کو بخشے ہیں
وہی کچھ دیپ اشکوں کے
جو اب آنکھوں میں جلتے ہیں
وہ تیری یاد کے خنجر
جو گھائل دل کو کرتے ہیں
مجھے تجھ سے شکایت ہے
مگر میں کیا کروں کہ
میں تجھے کچھ کہہ نہیں سکتا
جفا کا زہر پی کر بھی
میں تجھ بِن رہ نہیں سکتا
میں آنکھیں بیچنا چاہوں
مگر آنکھیں میں کیوں بیچوں
کہ اِن میں خواب ہیں تیرے
میں تیرے خواب کیوں بیچوں
یہ تیرے خواب ہی تو ہیں
جو میرے دل کی دھڑکن ہیں
اور اپنے دل کی دھڑکن کو
بھلا کب بیچ سکتا ہوں
میں آنکھیں بیچنا چاہوں
مگر کب بیچ سکتا ہوں
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔








