میں بُلبل تھی شوخ چنچل تیر ی محبت سے
جس سے فقط خوشیوں کی صدا آتی تھی
پھول تیری محبت کے گردشِ بہار میں بھنورے ہوئے تھے
تیری نسبت سے گویا خوشبوئے گلاب آتی تھی
رتجگے کی اذیت کہ تیرے ہجر نے بجھاکے رکھ دیا
تیری ذات سے ہی میری ہستی میں گمانِ صبح آتی تھی
مٹایا تھا خود اپنا آپ فقط تیری خاطر
کیا اندازہ نہ تھا تجھے تجھ سے میری زندگی کی ردا آ تی تھی
پھر یو ں کہ بلبل غمِ ہجراں سے چُپ سی ہو گئی
جس کے اندر شام بھی بن کے صبح جاوداں آتی تھی
تیرے ہجر میں وہ مرگِ محبت کا کفن اوڑھنے کو ہے
جس کو وفا نبھانے کی ہر ادا آتی تھی