میں جب بولوں لبوں سے بس تمہارا غم نکلتا ہے
کوئی بھی اور قصہ اس زباں سے کم نکلتا ہے
در و دیوار سے گھر کے پلستر جس طرح اکھڑے
ہمارے زخمِ دل سے اس طرح مرہم نکلتا ہے
بدن پر زخم آ جاتے ہیں اس کے نرم کرنوں سے
اسی باعث وہ گھر سے چاندنی میں کم نکلتا ہے
توجہ ہو اگر تیری تو دل سرشار ہوتا ہے
اگر تو پھیر لے نظریں تو میرا دم نکلتا ہے
اٹھی ہے ہوک سی دل میں تمہارے لوٹ جانے پر
بہاروں کا ہمارے ہاتھ سے موسم نکلتا ہے