میں دمِ حالِ شکستہ رت جگا بیزار ہوں
تھام لے کوئی مجھے میں گر رہی دیوار ہوں
جانبِ منزل رواں میں راستوں کی بھیڑ میں
ایک سے بچنا ہوا تو دوسرے کا وار ہوں
میں بدلتا ہوں لبادے موسموں کے ساتھ ساتھ
میں ہی کشتی میں سمندر میں ہی بانی پار ہوں
سچ اگر تحقیق میری ہو سکی تو زندگی
ہاتھ میں لکڑی کا ٹکڑا ظرف میں ہتھیار ہوں
حالتِ مجنوں سمجھ یا عا لمِ دیوانگی
میں فصیلِ عشق گوہر عشق کا شاہکار ہوں