میں نکل گیا ہوں مدار سے، مرے راستوں پہ غبار ہے
اسی کشمکش میں پڑا ہے دل کہ یہ بھول ہے یا فرار ہے؟
جسے راستوں نے جکڑ لیا ، اسے منزلوں کا شعور کیا
جو سلگ سلگ کے ہی بجھ گیا وہ چرا غ ہے نہ شرار ہے
بڑی کم نظر ہے وہ عاشقی جو خیال و خواب کی حد میں ہو
کہ حقیقتوں کے دیار میں کہاں وہمِ دل کا شمار ہے
جو چلا تھا درد سمیٹنے، وہی آج درد سے چور ہے
جسے فکر سارے جہاں کی تھی وہی آج خود پہ ہی بار ہے
یہ فلک کسی سے وفا کرے نہ زمیں کسی کی سدا رہے
بڑا مختصر سا قیام ہے بڑی بے مزہ سی بہار ہے