دیکھا جو میرا حال تو وہ بھی دہل گیا
نرمی زباں میں آگئی لہجہ پگھل گیا
آداب الفتوں کے سکھاتا تھا وہ مجھے
پھر آپ اپنے قول سے کیسے بدل گیا
سہمی ہوئی فضائیں ہیں پھیلی ہوئی گھٹن
وہ جب گیا تو شہر کا نقشہ بدل گیا
آنکھوں کے طاقچوں میں جلائے تھے کچھ چراغ
پر ظلمتوں کی آگ سے ہر خواب جل گیا
اپنے وجود کو اسی مٹّی میں چھوڑ کر
میں وقت کے حصار سے آگے نکل گیا
خوشبو تمھاری یاد کی پھیلی تھی چارسو
پیکر تمہارے حسن کا شعروں میں ڈھل گیا
رعنائیاں وہ چھین کے میرے وجود کی
چہرے پہ میرے ہجر کی کالک کو مل گیا
اس یارِ خوش جمال سے ملنا جو تھا مجھے
قدموں نے ساتھ چھوڑا تو میں سر کے بل گیا
میں ذات سے نکل کے ملا تھا اسے عمیر
وہ خود مرے وجود کے سانچے میں ڈھل گیا