نہ وہ عروج تخیل نہ آب و تاب سخن
ملے گا تشنہ لبوں کو کہاں سے “آبٌ سخن”
چڑھے جو اس کا نشہ ختم ہو نہیں پاتا
ظروف ِ حرف میں بھرتا جو ہوں “شراب سخن “
جو درد ِ خامشی حد سے پڑھا تو کیا کرتا
میں بے زبان بھی کر بیٹھا ارتکاب سخن
ضریح ِچاہت و الفت بنا ہی لی آخر
میں گُوندھتا تھا مودت بھری تراب ِ سخن
میں ڈگمگا سا گیا ، فکر کے مصلے پر
کہ سوچتا تھا کمالوں گا کچھ ثوابِ سخن
حضور آپ کا مجھ سے مقابلہ ہی نہیں
میں ایک ذرہ ہوں اور آپ آفتاب ِ سخن
خیال چونچ میں لے آئے طائر الہام
مجھے عطا ہوئی رب سے جو یہ کتابِ سخن
وہ کم سخن تو مری نیند تک پہ غالب ہے
دِکھا رہا ہے حسیں پھر سے ایک خواب ِسخن
یہ کس نے چھیڑ دی تاریں ، حسیں خیالوں کی
بجا رہا ہوں کھڑا کب سے میں رباب سخن
زمین ِ حرف میں مفتی جو بویا تُخم خیال
کھِلا ادب کے چمن میں نیا گلاب ِسخن