ناگریز حسرتوں کو سزائیں تم نے دی تھی
وہ بھٹکا مسافر جسے ادائیں تم نے دی تھی
کوئی ستارا بن کے عرش میں اٹکا ہی رہا
دو آنسو بہاکر یہ دعائیں ہم نے دی تھی
ایک نگاہ اٹھنے پر میں نے دل دے دیا
پھر تیرے اشکوں سے وفائیں ہم نے کی تھی
توُ تَو منزلوں تک قیام ہی طلب کرتی رہی
مگر تیری جستجو کو آنکھیں ہم نے دی تھی
نہ تھی نوید کوئی تو رات بھر سکوں تو تھا
اس طرح میری نیند کو کروٹیں کس نے دی تھی
او قیاس کا وحشی! اب کیا حق بات کہیں
کہ پُر آشوب میں آشائیں ہم نے رکھی تھی