ناگ پھنی
Poet: N A D E E M M U R A D By: NADEEM MURAD, UMTATA RSAکل عجب اک کیفیت تھی
دل کسی بھی چیز میں لگتا نہ تھا
کی بہت کوشش اگرچہ سونے کی
نیند کوسوں دور آنکھوں سے رہی
سو نکل آیا میں گھر سے
رہ گزاروں پر نہ جانے کتنی دیر
کرب میں پھرتا رہا
گیت جو تجھ پر لکھے تھے
ان کو گاتا، دل کو تڑپاتا رہا،
گاڑیوں کے شور نے جب اور دل بوجھل کیا
سر اٹھایا اک عجب خواہش نے دل میں پہلی بار
چلیئے اک ایسی جگہ
ہو جہاں پہ کچھ سکوں
ہوں سُریلی بولیاں کچھ پنچھیوں کی
اور پتوں کی ہو مدھم سرسراہٹ
ہو مہک پھولوں کی جو
دیوانہ سا کردے مجھے
بے گانہ سا کردے مجھے
ہوں رواں موجوں کے ساز
اور گھنے پیڑوں کی ٹھنڈی چھاؤں بھی
اُڑتی پھرتی ہوں جہاں پر بدلیاں
اور تتلیاں
کرکے طے لمبا سفر پہنچا اک ایسے باغ میں
جو شہر کی آلودگی سے پاک تھا
تھے وہاں بھی لوگ کچھ
تھا مگر پھر بھی سکوں
ہر طرف پھولوں نے بکھرائی تھی رعنائی بہت
روح میں پیوست ہوتی جا رہی تھیں نکہتیں
میں نے رونا چاہا تیری یاد میں
ڈھونڈتا پھرتا رہا میں باغ میں تنہا جگہ
دفعتاً جو اک طرف اُٹھی نگاہ
دیکھتا ہوں اسطرف کوئی نہ تھا
سو اسی جانب قدم میرے اُٹھے
میں نے دیکھی اک عجب دنیا وہاں
خار و گل میں تھا نمایاں زندگی کا امتزاج
پھیلتی جاتی تھیں آنکھیں دیکھتا تھا جس قدر
زندگی کانٹوں میں پھلتی پھولتی دیکھی وہاں
ایسے کانٹوں سے بھرے پودوں کی واں بہتات تھی
دامن صحرا کو جن پر ناز ہے
میں قریں ان کے زمیں پر بیٹھ کر ہنسنے لگا
زور سے ہنسنے لگا
ہنستے ہنستے پھس گئی آواز جب رونے لگا
دیر تک روتا رہا
اور ہوا کانٹوں سے پھر یوں ہم کلام
"آج تم سے میں نے پاتا زیست کرنے کا چلن
آج تم نے زندگی کا رمز سمجھایا مجھے
ہو کڑی کتنی بھی لیکن کاٹنی ہے زندگی"
پھر وہیں پر بیٹھے بیٹھے ہی مجھے نیند آگئی
اور نہ جانے کتنی دیر
میں یونہی سوتا رہا
دیر تک سوتا رہا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






