نجانے وہ آئینے سے نظریں کیسے ملاتا ہو گا
میری آنکھوں سے خود کو دیکھ کہاں پاتا ہو گا
دل کی بات جو دل ہی میں رہ گئی
نجانے وہ بیٹھ کر اب کہاں گاتا ہو گا
میری آرزوں کی شام جو ڈھلتی رہی
میری خواہشیوں کو وہ کہاں سمجھاتا ہوگا
مددتوں کی رفاقت اک پل میں توڑ کر
مصروف زندگی میں مجھے یاد کہاں کرتا ہوگا
میرا دل جو ہر لمحے ُاس کی طلب کرئے
لیکن میرے لیے وہ جیتا کہاں مرتا ہو گا
چھوڑ دیے یوں تو ہر رابطے ُاس سے مگر
میرے انتظار میں وہ پلکیں کہاں بیچھاتا ہوگا
کبھی غصے ، کبھی مذاق ، کبھی ویسے ہی
میری طرح بھلا اب کس کو کہاں ستاتا ہوگا
لکی ! کوئی منانے نہیں آئے گا اب ُاسے
شاید اس لیے وہ کسی کو چھوڑ کر کہاں جاتا ہوگ