نظر میں آئینہ ہے، اور پتھر سوچتے رہنا
پسِ منظر ہمیں اک اور منظر سوچتے رہنا
کبھی چن لینا اپنے گِرد تنہائی کی دیواریں
حصارِ ذات سے پھر آ کے باہر سوچتے رہنا
ہمیشہ اک نیا چہرہ لگائے ملتی ہے دنیا
اسے پہچاننا، اور پھر نیا ڈر سوچتے رہنا
کبھی یادوں کے جنگل سے دبے قدموں گذر جانا
کبھی ہر یاد کا ایک ایک تیور سوچتے رہنا
اُٹھائے جانا اپنے گِرد مجبوری کی دیواریں
کہا کھلتا ہے، کس دیوار میں، در سوچتے رہنا
نہیں لانا کبھی خاطر میں اک عالم کی بے مہری
کبھی پہروں کسی کی بے رُخی پر سوچتے رہنا
فسونِ آگہی طارق تمہیں پتھر بنا دے گا
تم اس کے توڑ کا بھی کوئی منتر سوچتے رہنا